دلچسپ کہانی "جادُو کی طشتری" بچوں کے لیے

دلچسپ کہانی "جادُو کی طشتری" بچوں کے لیے


کسی گاؤں میں ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ اُس کی تین بیٹیاں تھیں۔ دو پڑی بیٹیاں تو بے حد جاہل، بدمزاج اور مغرور تھیں لیکن سب سے چھوٹی بیٹی سلمی عقل مند، ایمان دار اور فرماں بردار تھی۔ وہ اپنی بڑی بہنوں کی ہر بات مانتی تھی، اس کے باوجود بڑی بہنیں اُسے حسد و نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔
ایک دن سلمی گھر میں تھی کہ ایک رحم دل جادُوگرنی، فقیرنی کے رُوپ میں اُس کے پاس آئی اور اُس سے پانی مانگا۔ سلمی نے اپنی مصروفیات کے باوجود اُسے پانی پلا دیا۔ جادُوگرنی بے حد خوش ہویئ اور اُس نے سلمی کا شکریہ ادا کیا اور جانے سے پہلے اُسے کچھ جنتر منتر پڑھایا اور کہا کہ " جب تم کسی چیز پر یہ جنتر منتر پڑھوگی تو تمہاری ہر خواہش پوری ہو جائے گی۔" اتنا کہنا تھا کہ جادُوگرنی وہاں سے گائب ہو گئی۔ اس واقعے کے دوسرے دن بوڑھے آدمی نے اپنی بیٹیوں سے کہا:
"میں ضروری کام سے ہر جا رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ واپسی پر تمہارے لیے تحفے لیتا آؤں۔"

اُس کی بڑی بیٹییوں نے کہا: "ابا جان! آپ ہمارے لیے غرارے اور ریشمی لباس لیتے آئیں۔: لیکن اس کی سب سے چھتی بیٹی سلمی خاموش اور چپ چاپ بیٹھی رہی۔ اُس کے ابو نے دوبارہ سلمی سے پوچھا کہ "بیٹی! میں تمہارے لیے کیا تحفہ لاؤں۔" تو سلمی نے جواب دیا : " ابا جان! آپ میرے لیے ایک سیب اور ایک چاندی کی طشتری لیتے آئیں۔" یہ بات سن کر اس کی بڑی بہنوں نے سلمی کا مذذاق اُڑایا اور کہنے لگیں : " اری سلمی ! تم کتنی بے وقوف ہو۔ سیب تو تم قریبی شہر کے باغ سے بھی منگوا سکتی ہو اور چاندی کی طشتری تمہارے کیا کام آئے گی۔ کیا تم اُس میں گھاس ڈال کر جانوروں کو کھلایا کرو گی؟"

سلمی اپنی بڑی بہنوں کی باتیں سن کر چُپ ہو رہی۔ اس کے بعد وہ سب اپنے اپانے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔ بوڑھا باپ اپنی بیٹیوں سے تحفوں کے بارے میں معلوم کر کے  شہر کی طرف چل دیا۔ وہاں پہنچ کر اُس نے اپنا کام نبٹایا اور اپنی بیٹیوں کی حواہشات کے مطابق چیزیں حریدیں اور گھر چلا آیا۔ سب سے پہلے اُس نے اپنی بڑی بیٹیوں کو اُن کے تخفے دیے، جنہیں پا کر وہ بہت خوش  ہوئیں اور سلمی کو جلانے کی خاطر اُس کے قریب بیٹھ کر ایک دوسرے کے تحفے کی تعریف کرنے لگیں۔ اس کے بود بوڑھے باپ نے اپنی چھوٹی بیٹی سلمی کو ایک سیب اور ایک طشتری کا تحفہ دیا۔ وہ بھی اپنا تحفہ پا کرر بھت خوش ہوئی اور اپنے گھر کے باہر اہک طرف بیٹھ کر طشتری میں سیب رگھ کر جنتر منتر پڑھنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سیب، طشتری پر گھومنے لگا اور اُس میں خوبصورت شہر، ہرے بھرے جنگلات، سمندر، پہاڑ، ندیاں، آسمان پر چہکتے ہوئے خوبصورت پرندے، چاند، سورج، ستارے اور تلواروں سے مسلح سپاہی دکھائی دینے لگے۔
جب سلمی کی بڑی بہنوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ جل بھن کر راکھ ہو گئیں.
 اور آپس میں سر گوشیاں کرنے لگیں کہ کسی نہ کسی طرح سلمی کو جان سے مار کر اس سے سیب اور طشتری حاصل کر لینے چاہیئں۔ چنانچہ منصوبے کے
 مطابق اُنہوں نے سلمی سے اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ جنگل  کی سیر کے لیے چلے۔ ان کے اصرار پر سلمی رضامند ہو گئی اور وہ تینوں جنگل کی طرف روانہ ہو گئیں۔ 

طویل سفر طے کرنے کے بود انہوں نے جنگل میں پہنچ کر ایک محفوظ جگہ تلاش کی۔ سلمی چھوٹی ہونے کے باعث تھک چکی تھی۔ وہ فورق ہری بھری گھاس پر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گئی، لیکن پڑی بہنیں سلمی کو جان سے مارنے کی ترکیبیں سوچنے لگیں۔ اتنے میں شیر کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔ سلمی کی بڑی بہنیں، شیر سے بچنے کی غرض سے وہاں سے بھاگ گئیں۔ اللہ کی قدرت دیکھیں، جس طرف سلمی کی بہنیں چھپنے کی غرض سے گئیں، ادھر شیر آ دھمکا، دیکھتے ہی دیکھتے انیہں چیڑ پھاڑ کر کھا گیا اور پھر اپنےھ غار کی طرف واپس چلا گیا۔

Comments