دلچسپ کہانی بے گُناہ کا گُناہ


 روس کے ایک قصبے ولادی  میر میں ایوان نام کا ایک شریف اور نیک تاجر رہتا تھا۔ تمام لوگ اسے دل و جان سے چاہتے تھے۔ اس قصبے سے دور، ایک دوسرے قصبے میں سالانہ میلا لگا کرتا تھا۔ ایوان بھی ہر سال تجارت کا سامان :لے کر وہاں جاتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ میلے میں جانے لگا تو اس کی بیوی بولی ایوان! میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت آنے والی ہے۔ رات میں نے خواب ۔" میں دیکھا کہ جب تم میلے سے واپس آئے تو تمھارے بال سفید ہوچکے ہیں  نے ہنس کر کہا یہ تو بہت اچھا کو خواب ہے معلوم ہوتا ہے اس مرتبہ تجارت میں   بہت دفعہ ہو گا یہ کہہ کر وہ گاڑی میں سوار ہوا اور ایک چلا چلا گیا ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ راستے میں اسے ایک اور سودا سودا کر ملا وہ بھی میلے میں جا رہا تھا۔
 دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے جب شام ہوئی تو وہ اسے سرائے میں ٹھہر ٹھہر گئے اور کھانا کھانا کر ایک ہی کمرے میں سو گئے ایوان صبح سویرے جاگنے کی عادت تھی۔
 ابھی رات کی سیاہی اچھی طرح دور نہ ہوئی تھی کہ وہ اپنے ساتھی کو جگانے لگا مگر یہ دیکھ کر اس خطا ہو گئے کہ اس کا ساتھی تاجر خون میں لت پت مردہ پڑا ہے اس نے سوچا اگر اگر دوپہر کے وقت را میں ایک سرائے پڑی تو وہاں ٹھہر گیا ابھی مشکل سے آدھا گھنٹہ ہی گذرا ہو گا کہ سرائے کے سامنے ایک عراقی میں ایک پولیس افسر اور دو سپاہی پر اتر آئے اور انہوں نے ان کو پکڑ لیا پولیس افسر نے ایمان سے کہا تمہیں ایک تاجر کے قتل کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے تم نے دونوں ایک ہی کمرے میں سوتے تھے اور دروازہ اندر سے بند تھا لہٰذا تم بھی اسی کے قاتل ہوں یہ کہہ کر اس نے ایمان کی تلاشی لی تو اس کے پھیلنے سے خون میں لتھڑی ہوئی۔
 چل نکلا ایوان بہت شیخ کا ملایا رو رو کر اپنی بے گناہی کا یقین دلایا دلایا لیکن پولیس افسر نے ایک نہ سنی اور اسے گرفتار کرکے تھانے لے گیا کچھ عرصے کے بعد ایوان کے خلاف مقدمہ چلا اور اسے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ہو گئی دین میں اجتہاد تربیت پے گئے اور اب ان کو جیل میں پورے 26 برس گزر گئے اسے اس کے چہرے پر چھائیاں پڑ گئی بال سفید ہوگئے اور داڑھی بڑھتے بڑھتے پیڑ تک آ گئی وہاں ہر وقت اللہ اللہ کر تھا اوردوسرے قیدیوں کو بھی نے کاموں کی ہدایت کرتا تھا جیل کے تمام قیدی اور افسر اس کی عزت کرتے اور ادب سے اس سے دادا کہتے تھے اس دوران اور بہت سے قیدی جیل میں آئے جینے میں ایک لمبا تنہا آدمی بھی تھا اس نے بتایا کہ آج بہت عرصے پہلے میں نے ایک بہت بڑا جرم کیا تھا اس وقت مجھے کسی نے نہیں پکڑا مگر آپ خواہ مخواہ پکڑا گیا حالانکہ میں بے گناہ ہوں اس نے بتایا کہ اسی کا نام مارکر ہیں اور وہ ولادیمیر کا رہنے والا ہے اپنے قصبے کا نام سن کر ایوان عوان نے اس سے پوچھا ولادیمیر میں ایمان نام کا ایک تاجر رہتا تھا جسے قتل قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوئی تھی اس کی بیوی بچوں کا کیا حال ہے بتایا کہ کسی کی بیوی مر چکی اس کی بیوی مر چکی ہے مگر بچے سب کے سب خوشی خوش حال ہیں۔

 پھر اس نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ کس جرم میں یہاں سزا بھگت رہا ہے ایمان تو خاموش رہا مگر ایک دوسرے قیدی سے نے بتایا کہ کسی آدمی نے ایک تاجر کو قتل کر کے خون میں لتھڑا ہوا کو ایوان کے سینے میں رکھ دیا تھا اس کے جرم کی سزا اس بیچارے کو ملی اور اب یہ 26 سال سے یہ عقیدہ یہ سنا تھا کہ مارکر کا رنگ فق ہو گیا ہو گیا اور وہ گھبرا گھبرا سا گیا مارکر کی حالت دیر کرے وہاں نے سوچا کہ دل میں کچھ کالا ہے اس نے مار کر سے پوچھا آپ کو اس داجل کے متعلق کچھ علم ہے ہنس کر بولا تھا کہ ان کے چہرے کا رنگ نیلا ہی تھا ایک رات مانا جیل کی دیوار کے ساتھ پھر رہا تھا کہ ایک جگہ اس سے کھٹ کھٹ کی آوازیں سنائی دی اس نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کوئی شخص دیوار میں سوراخ کر رہا تھا اس نے ایوان کو بتایا کہ میں دیوار توڑ کر یہاں سے بھاگنا چاہتا ہوں۔

 اک ہو گیا ہے آدھا کل ہو جائے گا اور تم میرے تم میرے ساتھ فرار ہوجانا اگر تمہیں یہ بات کسی کو بتایا تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا ایوان نے کہا مار کر تم تو مجھے آج سے 26 سال پہلے ہی مار چکے ہوں مجھے اب یہاں سے نکلنے کی رتی بھر بھی خواہش نہیں البتہ میں تمہارا کسی کو نہیں پتا ہوگا دوسرے اس راگ کا راز فاش ھو گیا یہاں سے افسر نے اعلان کیا کہ جو قیدی مجرم کو پکڑو پکڑو آئے گا اس سے اسے رہا کر دیا جائے گا تو تمام قیدی خاموش رہے کیوں کہ ایم کیو ایم ان کے اور کسی کو اس فرقے کا علم نہ تھا علم نہ تھا اور ایوان نے ایک دوسرے کے متعلق ایک لفظ تک نہ کہا اثرات ایوان سونے کے لئے لکھا تو مار کر اس کے پاس آیا اور بولا ایوان مجھے معاف کر دو میں نے ہی اسے سوداگر کو قتل کر کے چاک و تمہارے تھیلی میں رکھ دیا تھا میں کل صبح جیلر کے سامنے اپنے اس 26 سال پہلے کا یہ جرم کا اقرار کر لوں گا۔

 اور تمہیں اس قید سے نجات مل جائے گی دوسرے دن مار کر نے جیلر کے پاس جاکر اقبال جرم کرلیا او راؤ انوار عزت بری ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔

Comments