حکایت مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ ایک نوجوان کی کہانی


ایک نوجوان حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے کلیم اللہ ہوئے جانوروں کی زبان سکھا دیں تاکہ میں ان کی گفتگو سے عبرت حاصل کرو جب میں دیکھتا ہوں کے انسان کی سب باتیں روٹی کے گرد گھومتی ہیں تو مجھے خیال آتا ہے کہ سے والوں کے سوچنے کا انداز یقینا کچھ اور ہوگا اس لیے میں ان کی زبان سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے کہا اس لالچ سے بھری ہوئی خواہش سے ہاتھ اٹھا لیں اس میں کئی فتوے پوشیدہ ہیں اس کی بجائے تو اللہ سے عزت اور ہم کی دعا مانگ ۔
یہ سن کر وہ نوجوان رنجیدہ ہو گیا اور اپنی بات پر اصرار کرنے لگا یہ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ جس بات سے منع کیا جائے اس کی طرف رغبت اور بڑھتی ہے کہنے لگا اے اللہ سے کلام کرنے والے آپکے سینے میں نور کا خزانہ چھپا ہوا ہے ہر شخص نے اپنی قابلیت اور سوجھ بوجھ کے مطابق آپ سے فیض حاصل کیا ہے اگر آپ نے میری قبول نہ کی تو مجھے سخت مایوسی ہوگی ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں آج کی کے الہی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص پر شیطان نے اپنا اثر جمالی ہیں اگر میں اس کی خواہش پوری کر دو تو اسے نقصان پہنچانے کا ڈر ہے اگر نہ کھاؤ تو یہ مایوس اور پریشان ہو جائے گا ۔
حکم ہوا اے موسیٰ تم اسے جانوروں کی بولی سیکھا دو ہم کریم ہیں کسی کی دعا رد نہیں کرتے ۔
حضرت موسی علیہ اسلام نے آج کی یا اللہ یہ شخص پچھتائے گا اپنے ہاتھ جب آئے گا اور کپڑے پھاڑ ڈالے کا یہ نہیں جانتا کہ اس کے لیے کونسی چیز بہتر ہے ۔
بارگاہ الہی سے پھر کم واقعہ موسٰی شخص کی تمنا پوری ہوگی تاکہ اس کے دل میں حسرت نہ رہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے اب اس شخص کو بڑی نرمی اور محبت سے سمجھایا کہ بھائی اللہ تیری مراد پوری کردے گا لیکن اچھی طرح سمجھ لے کے تو شیطان کے بہکاوے میں آگیا ہے اور جانوروں کی بولیاں سیکھنے سے تجھے فائدے کی بجائے نقصان پہنچنے کا ڈر ہے ایسا سردرد تو کیوں موہ لیتا ہے ۔
اس نوجوان نے کہا اچھا سارے جانوروں کی زبانی نہ سہی صرف کتے کی بولی جو میرے گھر کے دروازے پر رہتا ہے اور مرغ کی بولی جو میرے گھر میں فلاحی چکھادیں الحال یہی کافی ہیں ۔
حضرت موسی علیہ اسلام نے فرمایا اچھا اب زیادہ پریشان نہ ہو جا آج سے تو ان دونوں جانوروں کی بولی سمجھ سکے گا ۔
یہ سن کر وہ شخص خوش خوش اپنے گھر کو لوٹا صبح ہوئی تو آزمائش کے لیے اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوگیا نوکرانی نے دسترخوان جا رہا تو اس میں سے رات کا بچہ ہوا روٹی کا ایک ٹکڑا زمین بگیر بڑا ملک وہ ٹکڑا فون اٹھا کر لے گیا کتے نے کہا :
تو نے مجھ پر ظلم کیا ہے دوستو تو گندم کا نامہ چیک کر بھی اپنا پیٹ بن سکتا ہے اور میدانوں کے کی بجائے روٹی کے ٹکڑے ہی سے اپنے پیر کیا جا سکتا ہوں لیکن تو نے وہ بھی مجھ سے چھین لیا ۔
ملک نے کہا میاں صبر کرو غم نہ کھاؤ اللہ تجھے اس کا بدلہ دے گا کل ہمارے مالک کا گھوڑا مار جائے گا تم بیچ بھر کر کھاؤں گے گھوڑے کا منہ کتب عید ہے کیونکہ اس کا کوئی نہیں بغیر کوشش اور محنت کے پیٹ بھر کر کھانا مل جاتا ہے ۔
نوجوان نے دونوں جانوروں کی گفتگو سنی تو فورا گھوڑا تھا ان سے کھولا تو منڈی میں جا کر دیا دوسرے دن سے خوان بچھا دوں مرگی پر روٹی کا ٹکڑا لے آیا کتے نے ناراض ہو کر مرغ سے کہا :
اے فریبی ملک یہ جھوٹ کا پتا چلے گا تو سب سے زیادہ مرغابیاں ہی تو نے کہا تھا کہ مالک کا گھوڑا مر جائے گا لیکن تم مجھے تو وہ مرا ہوا گھوڑا کہیں نظر نہیں آتا معلوم ہوتا ہے سچائی تجھے چھو کر بھی نہیں گزری ۔
دانہ مرغ نے جواب دیا مالک میں نقصان سے بچنے کے لیے گھوڑا بیچ ڈالا اور اپنا نقصان دوسروں پر ڈال دیا لیکن فکر نہ کر کلاس کا اونٹ مرجائےگا کتے خوب مزے اڑائیں گے ۔
یہ سن کر مالک جٹپٹ اونٹ بھی بیچ آیا اور اس طرح دونوں نقصان سے اپنی جان بچا لی تھی سے دن پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا تو کتے نے مجھ سے کہا ابے او جھوٹے کمبخت عشق تو کب تک مجھے فریب دیتا رہے گا ۔
ملک نے کہا بھائی اس میں میرا کوئی قصور نہیں حقیقت یہی کہ مالک نے جلدی میں اور بھی بیچ ڈالو نقصان سے بچ گیا لیکن کلاس کا غلام مر جائے گا اور اس کے رشتہ دار حاجت مندوں کو روٹیاں دیں گے اور کتے بھی ڈالو گے ۔
والد نے یہ سنا تو اسی وقت غلام بھی بیچ ڈالا نقصان سے بچ گیا تو وہ اپنی ہوشیاری پر بہت خوش تھا اور بار بار اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ میں تین ہاتھوں سے بات کیا ہو جب سے میں نے جانوروں کی بولی سیکھی ہیں تقدیر کا رخ بدل گیا ہے ۔
چوتھے دن کتا سخت غضبناک تھا اس نے ملک کو سخت برا بھلا کہا یہ تیری مکّاری اور جھوٹ کب تک چلے گا ۔
موج نے کہا توبہ توبہ یہ ناممکن ہے کہ میں یا میرا کوئی ہم جنس جھوٹ بولے ہماری قوم تو اذان دینے والے آدمیوں کی طرح نیک ہو سکتی ہیں اگر ہم غلطی سے بے وقت اذان دے بیٹھے تو مارے جائیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ غلام خریدار کے پاس جا کر مر گیا مالک نے اپنا مال تو بچالی لیکن سمجھ لو کہ اس نے اپنا خون کا ایک نسخہ نقصانات کو دور کرنا ہے جسے مال کا نقصان جانتے صدقہ بن جاتا ہے ۔باد شاہوں کی عدالت سے سزا ملے تو مال کا جرمانہ ادا کرکے جان بچ جاتی ہے لیکن کسی الہی سے بے خبر ہوتے ہوئے جو آدمی اپنا سامان بھیجا ہے وہ محض نادان ہے ۔
اگر وہی مال اس پر سے صدقہ ہو جاتا تو شاید اس سے بلا ٹل جاتی اب کال یقینن مالک خود مر جائے گا تو اس کے بعد اس کی وفات پر گائے ذبح کریں گے کہ بس پھر تمہارے وارے نیارے ہیں گائے کا گوشت پتلی پتلی روٹیاں اور طرح طرح کے لذیذ کھانے فقیروں کو اور بڑی بڑی ہڈیاں کتوں کو ملیں گی گھوڑے اور کلام کی موت اس نادان کی جان کا صدقہ ہے یہ مال کے نقصان سے تو بچ گئی مگر اپنی جان گنوا بیٹھا ۔
بالغ مرد کی باتیں غور سے سن رہا تھا اپنی موت کی پیشنگوئی سنی تو مارے خوف کے تھر تھر کانپنے لگا گرتا پڑتا حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور روتے ہو آج کیا ہم موسی علیہ السلام میری مدد فرمائیں ۔
حضرت موسی السلام علیکم آیا کر کے جا اب اپنے آپ کو بھی بھیج دو انسان سے جا تو ایسی خریدوفروخت کا بڑا مار ہوگیا ہے دوسرے لوگ مرے یا جئے تو اپنی تھیلیاں مال دولت سے بڑھ کر سکوں ۔تجھے یہ بات اب نظر آئیں ہیں لیکن مجھے پہلے ہی علم تھا ۔
نوجوان گڑگڑا کر کہنے لگا مجھ سے پار چھٹکارا مین لائک اور احمد موجودہ سیاسی خطا ہوئی آپ میری بری حرکت کا اچھا بدلہ دے ۔
حضرت موسی نے اسلام نے فرمایا اے بیٹے اب تیرا اپیل کمان سے نکل چکا ہے اور اس کا لوٹانا اللہ کی مرضی کے خلاف ہیں ہاں میں اللہ تعالی سے دعا کروں گا کہ مرتے وقت تجھے ایمان نصیب کرے ۔
نوجوان نے روک کر کہا تو پھر ایسا ہی عرض کردیں میں نے اپنے ہاتھوں اپنی جڑ کاٹی ہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں یہ دعا ضرور کروں گا ۔
یہ سن کر اس شخص کی طبیعت دفعات نہ بگڑ گئی اور وہ کے کرنے لگا یہ کہہ دے کہ نہ تھی بلکہ موت کی تھی چار آدمیوں سے چارپائی پر ڈال کر گھر لے گئے جہاں اس نے جان دے دی ۔
اسے دن حضرت موسی اسلام آباد کا حال ہی میں آج کی کے اہم علاقے کون و مکاں ہے اسے ایمان سے محروم نہ فرما تو اپنی بادشاہی کے صدقے میں اسے بخش دے اس نے یہ گستاخ یہ غلطی سے کی میں نے اسے بہتر سمجھایا کہ تو اس علم کے سیکھنے کا اہل نہیں ہے لیکن وہ سمجھا کہ میں اسے ٹال رہا ہوں ۔
تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعا قبول فرما لی گئی آپ سے آواز آئی کہ ہم نے اسے احمام بخشا اگر تم چاہو تو اسے زندہ کر دے برکت زندہ کردی ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کی یا اللہ یہ دنیا تو فانی ہے فنا سے اس گھر میں چند دنوں کے لیے لوٹانے سے فائدہ تھا تو ان سب پر اپنی رحمت کر انہیں بخش دے ۔
اس حکایت میں مولانا روم یہ سبق دیتے ہیں کہ دینوی نقصان پر زیادہ کام نہیں کرنا چاہیے ہر بیماری نقصان نے کوئی بیل ہوتا ہے جسم کی مصیبت یا مال کا نقصان کسی بڑی مصیبت کا صدقہ بن جاتا ہے اور اسے ٹال دیتا ہے ۔

Comments